اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۲۰

 ’’ منحوس دنوں ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دن بجاٴئے خود منحوس تھے اور عذاب اس لیے آیا کہ یہ منحوس دن قوم عاد پر آ گٴئے تھے۔ یہ مطلب اگر ہوتا اور بجاٴئے خود ان دنوں ہی میں کوئی نحوست ہوتی تو عذاب دور و نزدیک کی ساری ہی قوموں پر آ جاتا۔  اس لیے صحیح مطلب یہ ہے کہ ان ایام میں چونکہ اس قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوا اس بنا پر وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ اس آیت سے دنوں کے سعد و نحس پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

طوفانی ہوا کے لیے ’’ریح صر صر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گٴئے ہیں ۔ اس کے معنی میں اہل لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت لُو ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سخت ٹھنڈی ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ  اس سے مراد ایسی ہوا ہے جس کے چلنے سے سخت شور برپا ہوتا ہو۔ بہر حال اس معنی پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مر گٴئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھو کھلے تنے گرے پڑے ہوں (الحاقہ  آیت 7) جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی، اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیا (الزاریات، 42 ) جس وقت یہ ہوا آ رہی تھی اس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گھر کر آئی ہے، بارش ہو گی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جاٴئے گا۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کر کے رکھ دیا (الا حقاف، 24۔25)