اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر۳۴

 فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں ۔ اگر چہ اللہ جل شانہٗ  جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے، لیکن بالعموم اہل ایمان پر، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں ، ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجاٴئے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت، یا قبر، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو، اور ان کی ہمت بندھے، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں ۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں ، اور قبر (عالم برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ، اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتداٴئے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے، لیکن ان کی یہ معیّت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں ۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہارے سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسرے طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔