اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر٦۲

 اس ارشاد سے سامعین کو دو باتوں کا احساس دلایا گیا ہے، ایک یہ کہ صرف ایک قیامت ہی نہیں بلکہ تمام مور غیب کا علم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جزئیات کا اتنا تفصیلی علم رکھتا ہے اس کی نگاہ سے کسی شخص کے اعمال و افعال کا چوک جانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا کسی کو بھی اس کی خدائی میں بے خوف ہو کر من مانی نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا تعلق بعد کے فقروں سے جڑتا ہے۔ اس رشاد کے معاً بعد جو کچھ فرمایا گیا ہے اس پر غور کیجیے تو ترتیب کلام سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا نظر آئے گا کہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنے کی فکر میں کہا ں پڑے ہو، فکر اس بات کی کرو کہ جب وہ آئے گی تو اپنی ان گمراہیوں کا تمہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات ہے جو ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی تاریخ پوچھنے والے ایک شخص سے فرمائی بھی۔ صحاح اور سنن اور مسانید میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ سفر میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک شخص نے دور سے پکارا یا محمدؐ۔ آپؐ نے فرمایا بولو کیا کہنا ہے۔ اس نے کہا قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے جواب دیا : ویحک انھا کائنۃ لا محالۃ فھا اعد دت لھا؟ ’’بندۂ خدا، وہ تو بہر حال آنی ہی ہے۔ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟‘‘