اس رکوع کو چھاپیں

سورة حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر٦۹

 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض اس خطرے کی بنا پر ایمان لے آؤ کہ اگر کہیں یہ قرآن خدا ہی طرف سے ہوا تو انکار کر کے ہماری شامت نہ آ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سر سری طور پر بے سوچے سمجھے تم انکار کر رہے ہو، اور بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجاٴئے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہو، اور خواہ مخواہ کی ضد میں آ کر مخالفت پر تل گٴئے ہو، یہ کو ئی دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ تم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے نہ ہونے کا علم ہو گیا ہے اور تم یقین کے ساتھ یہ جان چکے ہو کہ خدا نے اسے نہیں بھیجا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے کلام الہٰی ماننے سے تمہارا انکار علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان کی بنا پر ہے۔ جس کا صحیح ہونا اگر بادی النظر میں ممکن ہے تو غلط ہونا بھی ممکن ہے۔ اب ذرا ان دونوں قسم کے امکانات کا جائزہ لے کر دیک لو۔ تمہارا گمان فرض کرو کہ صحیح نکلا تو تمہارے اپنے خیال کے مطابق زیادہ بس یہی ہو گا کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں یکساں رہیں گے، کیونکہ دونوں ہی کو مر کر مٹی میں مل جانا ہے، اور آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں کفر و ایمان کے کچھ نتائج نکلنے والے ہوں ۔ لیکن اگر فی الواقع یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور وہ سب کچھ پیش آ گیا جس کی یہ خبر دے رہا ہے، پھر بتاؤ کہ اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے۔ اس لیے تمہارا اپنا مفاد یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس قرآن پر غور کرو۔ اور غور کرنے کے بعد بھی تم ایمان نہ لانے ہی کا فیصلہ کرتے ہو تو نہ لاؤ، مگر مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اس حد تک آگے تو نہ بڑھ جاؤ کہ جھوٹ اور مکر و تلبیس اور ظلم و ستم کے ہتھیار اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کرنے لگو، اور خود ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کر کے دوسوں کو بھی ایمان لانے سے روکتے پھرو۔