اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشوریٰ حاشیہ نمبر١۴

 یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ اس کو جو لوگ صرف آخرت کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں ، وہ غلطی کرتے ہیں۔ کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہے کہ اللہ کی یہ حاکمانہ حیثیت اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف موت کی زندگی کے لیے ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں صرف عقائد اور چند’’ مذہبی‘‘ مسائل تک اسے محدود قرار دیتے ہیں ، وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الا طلاق تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رو سے اللہ جس طرح آخرت کا مالک یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا بھی احکم الحاکمین ہے۔ اور جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور نا پاک کیا، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا ، اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے ، معاشرت اور  تمدن اور سیاست اور معیشت میں کونسے طریقے درست ہیں اور کونسے غلط۔ آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ فَاِنْ تَنَزَعْتُمْفِیْ شَئءٍ فَرپدُّ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْ لِ (انساء۔59)، اور   مَا کَانَ لِمپؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَ اقَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ  اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرھِمْ (الاحزاب۔ 36)، اور  اِتَّبِعُوْ ا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّ بِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْ ا مِنْدُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَ (الاعراف۔3)

پھر جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس کے اندر یہ ایک اور معنی بھی دے رہی ہے ، اور وہ یہ  ہے کہ اختلافات کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا محض قانونی حق ہی نہیں ہے جس کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کافر و مومن ہونے کا مدار ہے ، بلکہ اللہ فی الواقع عملاً بھی حق اور باطل کا فیصلہ کر رہا ہے جس کی بدولت باطل اور اس کے پرستار آخر کار تباہ ہوتے ہیں اور حق اور اس کے پرستار سرفراز کیے جاتے ہیں ، خواہ اس فیصلے کے نفاذ میں دنیا والوں کے کتنی ہی تاخیر ہوتے نظر  آتی ہو۔ یہ مضمون آگے آیت 24 میں بھی آ رہا ہے ، اور اس سے پہلے قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، ص 453۔ 465۔ 466۔ 479۔ 483 تا 486۔ 638۔ جلد سوم ، ص 151۔152۔161)