اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشوریٰ حاشیہ نمبر۴١

 اصل الفاظ ہیں :  اِلَّا  الْمَوَدَّ ۃَ فِی الْقُرْبٰی۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ’’قربٰی ‘‘ کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ ’’قربٰی‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے۔

ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشت دری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا ، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تُل گئے ہو‘‘۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی ، اور ابن سعد و غیر ہم نے نقل کیا ہے ، اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ ، قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ، ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔

دوسرا گروہ’’ قربٰی ‘‘ کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جائے‘‘ یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے ، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں اب عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ  میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآ ءَ اَنْ یَّتََّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً (الفرقان۔57)۔ ’’ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔‘‘

تیسرا گروہ ’’ قربٰی ‘‘ کو اقرب (رشتہ داروں ) کے معنی میں  لیتا ہے ، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو‘‘۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں ، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے ، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے ، نبی صلی کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھ۔   آپ کی والدہ ماجدہ ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں  آپؐ کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات ، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے ، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو ، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اللہ رب العالمیں کے ذمہ ہے۔ (یونس 72۔ ہود 29۔51۔ الشعراء 109۔127۔145۔164۔180)۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا  گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے (آیت 21)۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو(الانعام 90۔یوسف 104۔المؤمنون 72۔الفرقان 57۔ سبا 47۔ ص 82۔ الطور 40۔ القلم 46)۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر  ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے ، اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں  پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے۔