اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشوریٰ حاشیہ نمبر۴۸

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُحجانات کی آزمائش ہوجائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن  جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ اس بنیادی سبب کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو کفار مکہ کی سرکشی میں کام کر رہا تھا۔ اگرچہ روم و ایران کے مقابلہ میں ان کی کوئی ہستی نہ تھی اور گرد و پیش کی قوموں میں وہ ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے ، یا بالفاظ دیگر، بنجاروں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے ، مگر اپنی اس ذرا سی دنیا میں ان کو دوسرے عربوں کی بہ نسبت جو خوشحالی اور بڑائی نصیب تھی اس نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا یہ وہ اللہ کے نبی کی بات پر کان دھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے ، اور ان کے سرداران قبائل اس کو اپنی کسر شان سمجھتے تھے کہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) ان کے پیشوا ہوں اور وہ ان کی پیروی کریں ،۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کہیں ہم ان چھوٹے ظرف کے لوگوں پر واقعی رزق کے دروازے کھول دیتے تو یہ بالکل ہی پھٹ پڑتے ، مگر ہم نے انہیں دیکھ کر ہی رکھا ہے ، اور ناپ تول کر ہم انہیں بس اتنا ہی دے رہے ہیں جو ان کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت دوسرے الفاظ میں وہی مضمون ادا کر رہی ہے جو سورہ توبہ، آیت 68۔ 70، الکہف، آیات 32۔42۔القصص، آیات 75۔ 82۔الروم، آیت 9۔ سبا، آیت 34۔36۔ اور المومن آیات 82۔85 میں بیان ہوا ہے۔