اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشوریٰ حاشیہ نمبر۸۴

 یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضورﷺ کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے، یا ملنی چاہیے، بلکہ آپ سرے سے کتبِ آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرور حاصل تھا، مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سےواقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا  باتیں ماننی چاہییں، اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب ِ الٰہی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سی باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفارِ مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں۔ مکہ ٔمعظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا  تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کبھی حضورﷺ کی زبان سے کتابِ الٰہی کا کوئی ذکر سنا ہو، یا آپ سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اس کی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں، اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ۳، حاشیہ ۱۰۹)