اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۱۰

 یعنی ہر علاقے کے لیے بارش کی ایک اوسط مقدار مقرر کی جو مدت ہائے دراز تک سال بہ سال ایک ہی ہموار طریقے سے چلتی رہتی ہے ۔ اس میں ایسی بے قاعدگی نہیں رکھی کہ کبھی سال میں دو انچ بارش ہو اور کبھی دو سو انچ ہو جائے ۔ پھر وہ اس کو مختلف زمانوں میں اور مختلف اوقات میں جگہ جگہ پھیلا کر اس طرح برساتا ہے کہ بالعموم وہ وسیع پیمانے پر زمین کی بار آوری کے لیے نافع ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی اسکی حکمت ہی ہے کہ زمین کے بعض حصوں کو اس نے بارش سے قریب قریب بالکل محروم کر کے بے آب و گیاہ صحرا بنا دیے ہیں ، اور بعض دوسرے حصوں میں وہ کبھی قحط ڈال دیتا ہے اور کبھی طوفانی بارش کر دیتا ہے تاکہ آدمی یہ جان سکے کہ زمین کے آباد علاقوں میں بارش اور اس کے عام باقاعدگی کتنی بڑی نعمت ہے ، اور یہ بھی اس کو یاد رہے کہ اس نظام پر کوئی دوسری طاقت حکمراں ہے جس کے فیصلوں کے آگے کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی ۔ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایک  ملک میں بارش کے عام اوسط کو بدل سکے ، یا زمین کے وسیع علاقوں پر اس کی تقسیم میں فرق ڈال سکے ، یا کسی آتے ہوئے طوفان کو روک سکے ، یا روٹھے ہوئے بادلوں کو منا کر اپنے ملک کی طرف کھینچ لائے اور انہیں برسنے پر مجبور کر دے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد دوم، صفحات 502۔503۔ جلد سوم ، ص 270۔ 272)۔