اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۲۷

یعنی جب بھی راہ راست سے ذرا قدم ہٹے تو یہ کلمہ ان کی رہنمائی یے لیے موجود رہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ آئیں۔ اس واقعہ کو جس غرض کے لیے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کفار قریش کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا جائے اور انہیں اس بات پر شرم دلائی جائے کہ تم نے اسلاف کی تقلید اختیار کی بھی تو اس کے لیے اپنے بہترین اسلاف کو چھوڑ کر اپنے بد ترین اسلاف کا انتخاب کیا ۔ عرب میں قریش کی مشیخت جس بنا پر چل رہی تھی  وہ تو یہ تھی کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد تھے اور ان کے بنائے ہوئے کعبے کی مجاوری کر رہے تھے ۔ اس لیے انہیں پیروی ان کی کرنی چاہیے تھی نہ کہ اپنے ان جاہل اسلاف کی جنہوں نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے طریقے کو چھوڑ کر گرد و پیش کی بت پرست قوموں سے شرک سیکھ لیا ، پھر اس واقعہ کو بیان کر کے ایک اور پہلو سے بھی ان گمراہ لوگوں کی غلطی واضح کی گئی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ حق و باطل کی تمز کیے بغیر اگر آنکھیں بند کر کے باپ دادا کی تقلید کرنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ یہ کام کرتے ۔ مگر انہوں نے صاف صاف اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا کہ میں تمہارے اس جاہلانہ مذہب کی پیروی نہیں کر سکتا جس میں تم نے اپنے خالق کو چھوڑ کر ان ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے جو خالق نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہو کہ حضرت ابراہیمؑ تقلید آبائی کے قائل نہ تھے ، بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ باپ دادا کی پیروی کرنے سے پہلے آدمی کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں بھی یا نہیں، اور اگر دلیل معقول سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو ان کی پیروی چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دلیل کی رو سے حق ہو۔