اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۳

اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی ۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے ۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھاۓ تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے ۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے ۔ کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجاۓ خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم ، اس کی معجزانہ بلاغت ، اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے ۔ یہ کسی کے گراۓ کیسے گر جاۓ گی۔ آگے چل کر آیت 44 میں ریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح نا قدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ 39)