اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۳۱

یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں:
پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقوم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا نا کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ (یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے )۔
دوسرے بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے ، دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ، ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہو ہاتھ میں رکھی اور کے حوالے نہیں کر دی ۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہن اور کسی کو کند ذہن ، کسی قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج  یا اندھا یا گونگا بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا ۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے ۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ پھر  انسانوں کے درمیان رزق ، طاقت ، عزت ، شہرت ، دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں ۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار  آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔
تیسری بات  کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا ۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے ، اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے ، یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو، بلکہ ہر  ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے ۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت ، حسن ، طاقت ، اقتدار، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے ؟