اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۳۷

اس ارشاد کا مطلب اس ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے ہی اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے ۔ کفار مکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہی ان کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے ، یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے تو پھر سب اچھا ہو جائے گا۔ اسی گمان فاسد کی بنا پر وہ شب و روز بیٹھ بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے رخ پھیر کر اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم زندہ رہو گے تو تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی شامت آئے گی، اٹھا لیے جاؤ گے تو تمہارے پیچھے ان کی خبر لی جائے گی۔ شامت اعمال اب ان کی دامنگیر ہو چکی ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے ۔