اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۴

اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تم پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت ، پستی اور بد حالی میں مبتلا ہے ۔ یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے ۔ وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے  نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے ، تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو،  جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کر لے ۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کی پیچھے ہاتھ دھو کر  پڑ جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی  کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوۓ ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامھے آ جانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔؟