اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۴۳

ان نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ان کو دکھائیں ، اور وہ یہ تھیں:
(1)جادوگروں سے اللہ کے نبی کا بر سر عام مقابلہ ہوا اور وہ شکست کھا کر ایمان لے آئے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، ص 67 تا 70۔ جلد سوم ، ص 100 تا 107 ۔ 489 تا 494۔
(2) حضرت موسیٰ کے پیشگی اعلان کے مطابق مصر کی سر زمین میں شدید قحط برپا ہو گیا اور وہ انکی دعا پر ہی دور ہوا۔
(3) ان کے پیشگی اعلان کے بعد سارے ملک میں ہولناک بارشوں اور ژالہ باری اور گرج اور کڑک کے طوفان آ ئے جنہوں نے بستیوں اور کھیتوں کو تباہ کر ڈالا ، اور یہ بلا بھی ان کی دعا سے  ہی دفع ہو ئ ۔
(4)  پورے ملک پر ان کے اعلان کے مطابق ٹڈی دَلوں کا خوفناک حملہ ہوا اور یہ آفت بھی اس وقت تک نہ ٹلی جب تک انہوں نے اسے ٹالنے کے لیے اللہ سے دعا نہ کی۔
(5) ملک بھر میں ان کے اعلان کے مطابق جُوئیں اور سُر سریاں پھیل گئیں جن سے ایک طرف آدمی اور جانور سخت مبتلا ئے عذاب ہوئے اور دوسرے طرف غلوں کی گودام تباہ ہو گئے ۔ یہ عذاب بھی اس وقت ٹلا جب حضرت موسیٰ سے درخواست کر کے دعا کرائی گئی ۔
(6) ملک کے گوشے گوشے میں ان کی قبل از وقت تنبیہ کے مطابق مینڈکوں کا سیلاب امنڈ آیا جس نے پوری آبادی کا ناطقہ تنگ کر دیا ۔ اللہ کی یہ فوج بھی حضرت موسیٰ کی دعا کے بغیر واپس نہ گئی۔
(7) ٹھیک ان کے اعلان کے مطابق خون کا عذاب رونما ہوا ، جس سے تمام نہروں، کنوؤں ، تالابوں اور حوضوں کا پانی خون میں تبدیل ہو گیا ، مچھلیاں مرگئیں، ہر جگہ پانی کے ذخیروں میں عفونت پیدا ہو گئی، اور پورے ایک ہفتے تک مصر کے لوگ صاف پانی کو ترس گئے ۔ یہ آفت بھی اس وقت ٹلی جب اس سے نجات پا نے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کرائی گئی ۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ،ص 72۔73۔ جلد سوم، ص 560۔561۔ جلد چہارم ، المومن ، حاشیہ 37۔
بائیبل کی کتاب خروج، باب 7۔8۔9۔ 10 اور 12 میں بھی ان عذابوں کی مفصل رو داد درج ہے ، مگر وہ گپ اور حقیقت کا مجموعہ ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جب خون کا عذاب آیا تو جادوگروں نے بھی ویسا ہی لا کر دکھایا ۔ مگر جب جوؤں کا عذاب آیا تو جادوگر جواب میں جوئیں پیدا نہ کر سکے اور انہوں نے کہا کہ یہ خدا کا  کام ہے ۔ پھر اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مینڈکوں کا سیلاب اٹھا تو جادوگر بھی جواب میں مینڈک چڑھا لائے ، لیکن اس کے باوجود فرعون نے حضرت موسیٰ ہی سے یہ درخواست کی کہ اللہ سے دعا کر کے اس عذاب کو دفع کراییئے ۔ سوال یہ ہے کہ جب ادو گر مینڈک چڑھا لانے پر قادر تھے تو فرعون نے ان ہی کے ذریعہ سے یہ عذاب کیوں نہ دور کرا لیا ؟ اور آخر یہ معلوم کیسے ہوا کہ مینڈکوں کی اس فوج میں اللہ کے مینڈک کون سے ہیں اور جادو گروں کے مینڈک کون سے ؟ یہی سوال خون کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کی تنبیہ کے مطابق ہر طرف پانی کے ذخیرے خون میں تبدیل ہو چکے تھے  تو جادوگروں نے کس پانی کو خون بنایا اور کیسے معلوم ہوا کہ فلاں جگہ کا پانی جادوگروں کے کرتب سے خون بنا ہے ؟ ایسی ہی باتوں سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ بائیبل خالص کلام الٰہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کو جن لوگوں نے تصنیف کیا ہے انہوں نے اس کے اندر اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا دیا ہے ۔ اور غضب یہ ہے کہ یہ مصنفین کچھ تھے بھی واجبی سی عقل کے لوگ جنہیں بات گھڑنے کا سلیقہ بھی نصیب نہ تھا ۔