اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۴۸

بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ فرعون کا اعتراض اس لُکنت پر تھا جو حضرت موسیٰ کی زبان میں بچپن سے تھی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت کے منصب پر سرفراز کیا جا رہا تھا اس وقت انہوں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دیجیے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں، اور اسی وقت ان کی دوسری درخواستوں کے ساتھ یہ درخواست بھی قبول کر لی گئی تھی (آیات 27 تا 36 )۔ پھر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ کی جو تقریریں نقل کی گئی ہیں وہ کمال درجے کی طاقت لسانی پر دلالت کرتی ہیں ۔ لہٰذا فرعون کے اعتراض کی بنا کوئی لکنت نہ تھی جو آنحضرت کی زبان میں ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص نہ معلوم کیا الجھی باتیں کرتا ہے ، مابدولت کی سمجھ میں تو کبھی اس کا مدعا آیا نہیں۔