اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۵۰

اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے ، ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے ، کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار چلاتا ہے ، اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے ، تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور خلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے ، اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف ، بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تا، واقعی وہ وہی کچھ ہیں۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ’’ فاسق‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت ۔ ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے ، ہر جبار کے آگے رہنے ، ہر باطل کو قبول کرنے ، اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔