سورۃ الزخرف حاشیہ نمبر۷۰ |
|
یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہٖ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے ۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے ، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے ، اور اس کا تعل : فَاَ نّیٰ یُؤْ فَکُوْنَ سے ہے ، اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْ مِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ : |