سورۃ الدخان حاشیہ نمبر۱۳ |
|
ان آیات کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوا ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مشہور شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز ہم کو فے کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے۔ اس نے آیت : یَوْمَ تَأ تِی السَّمَآءُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ پڑھی ، پھر کہنے لگا ، جانتے ہو یہ کیسا دھواں ہے ؟ یہ دھواں قیامت کے روز آئے گا اور کفار و منافقین کو اندھا بہرا کر دے گا، مگر اہل ایمان پر اس کا اثر بس اس قدر ہوگا کہ جیسے زکام لاحق ہوگیا ہو ۔ اس کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس گئے اور ان سے واعظ کی یہ تفسیر بیان کی ۔ حضرت عبداللہ لیتے ہوئے تھے۔ یہ تفسیر سن کر گھبرا کے اٹھ بیٹھے اور کہتے لگے کہ آدمی کو علم نہ ہو تو اسے جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب قریش کے لوگ اسلام قبول کرنے سے انکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہی چلے گئے تو حضور نے دعا کی کہ خدایا یوسف علیہ السلام کے قحط جسے قحط سے میری مدد فرما ۔چنانچہ ایسا شدید کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور چمڑا اور مردار تک کھا گئے ۔ اس زمانے میں حالت یہ تھی کہ جو شخص آسمان کی طرف دیکھتا تھا اسے بھوک کی شدت میں بس دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا ۔ آخر کار ابو سفیان نے آ کر حضور سے کہا کہ آپ تو صلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے ۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دور کر دے ۔ یہی زمانہ تھا جب قریش کے لوگ کہتے لگے تھے کہ خدایا ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ایمان لے آئیں گے ۔ اسی واقعہ کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ اور بڑی ضرب سے مراد وہ ضرب ہے جو آخر کار جنگ بدر کے روز قریش کو لگائی گئی ۔ یہ روایت امام احمد، بخاری، ترمذی ، نسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے متعدد سندوں کے ساتھ مسروق سے نقل کی ہے۔ اور مسروق کے علاوہ ابراہیم نخعی ،قتادہ، عاصم اور عامر کا بھی یہی بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس آیت کی یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت موصوف کی رائے فی الواقع یہی تھی ۔ تابعین میں سے مجاہد ، قتادہ، ابو العالیہ ، مقاتل، ابراہیم النخفی،ضحاک اور عطیۃ الغوفی وغیرہ حضرات نے بھی اس تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے اتفاق کیا ہے۔ |