اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدخان حاشیہ نمبر۱۸

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مقابلے میں جو سرکشی تم کر رہے ہو یہ در اصل اللہ کے مقابلے  میں سرکشی ہے ، کیونکہ میری جن باتوں پر تم بگڑ رہے ہو وہ میری نہیں بلکہ اللہ کی باتیں ہیں اور میں اسی کے رسول کی حیثیت سے انہیں بیان کر رہا ہوں۔ اگر تمہیں اس میں شک ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں یا نہیں ، تو میں تمہارے سامنے اپنے مامور من اللہ ہونے کی صریح سند پیش کرتا ہوں ۔ اس سند سے مراد کوئی ایک معجزہ نہیں ہے بلکہ معجزات کا وہ طویل سلسلہ ہے جو فرعون کے دربار میں پہلی مرتبہ پہنچنے کے بعد سے آخر زمانہ قیام تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کو سالہا سال تک دکھاتے رہے ۔ جس سند کو بھی اُن لوگوں نے جھٹلایا اس سے بڑھ کر صریح سند آپ پیش کرتے چلے گئے ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الزخرف حواشی نمبر 42۔43)۔