اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدخان حاشیہ نمبر۴۴

اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے  بعد جہنم سے بچائے جانے کا ذکر خاص طور پر الگ فرمایا گیا ہے، حالاں کہ کسی شخص کا جنت میں پہنچ جانا آپ اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ جہنم میں جانےسے بچ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرمانبرداری کے انعام کی قدر انسان کو پوری طرح اسی وقت محسوس ہوسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ بات بھی ہو کہ نافرمانی کرنے والے کہاں پہنچے ہیں، اور وہ کس برے انجام سے بچ گیا ہے۔
دوسری قابل توجہ بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے ۔ اس سے انسان کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا فضل کے بغیر کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ پھر جو بہتر سے بہتر عمل بھی آدمی سے بن ٍآ سکتا ہے وہ کبھی کامل و اکمل نہیں ہوسکتا جس کے متعلق دعوے سے یہ کہا جا سکے کہ اس میں نقص کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ بندے کی کمزوریوں اور اس کے عمل کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خدمات کو قبول فرمالے اور اسے انعام سے سرفراز فرمائے ۔ ورنہ باریک بینی کے ساتھ حساب کرنے پر وہ اتر آئے تو کس کی یہ ہمت ہے کہ اپنی قوت بازو سے جنت جیت لینے کا دعویٰ کرسکے۔ یہی بات ہے جوحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمنقول ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: اعملو ا و سد دو اوقار بوا و اعلموا انّ احداً لن یُّد خلہُ عملہ الجنۃ۔ ’’ عمل کرو اور اپنی حداستطاعت تک زیادہ سے زیادہ ٹھیک کام کرنے کی کوشش کرو، مگر یہ جان لو کہ کسی شخص کو محض اس کا عمل ہی جنت میں نہ داخل کر دے گا۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ، کیا آپ کا عمل بھی‘‘؟  فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یتغمّد نی اللہ بِرَحْمَتِہٖ ، ’’ ہاں میں  بھی محض اپنے عمل کے زور سے جنت میں نہ پہنچ جاؤں گا الّا یہ کہ مجھے میرا رب اپنی رحمت سے ڈھانک لے ‘‘۔