اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الجاثیۃ نمبر۱۸

اصل لفاظ ہیں اَ لَّذِیْنَ لَا یَرْ جُوْنَ اَیَّا مَ اللہِ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع  نہیں رکھتے ‘‘۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ ہو یادگار دن ہوتے ہیں جن میں  اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے،‘‘ یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے۔