اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الجاثیۃ نمبر۲

تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھر پڑا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک، حاکم اور مدبر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود۔ لہٰذا بے کہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں۔
پھر یہ جو فرمایا  کہ’’ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، اور ہٹ دھرم لوگ، جو نہ ماننے کا تہیہ کے بیٹھے ہیں، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے۔