اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الجاثیۃ نمبر۲۷

یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں۔یہ بات اگر نہ ہو، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو گو سرے سے اخلاق میں خولی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے۔جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے۔لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر خلاق کی پابندیاں لگائے رہا۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا۔ نا جائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا، سمیٹتا چلا گیا۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 263۔ 264۔ 368۔ 541، جلد سوم 205۔206۔ 600۔ 731 تا 734۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ،صٓ، آیت 28۔ حاشیہ نمبر 30)