اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الجاثیۃ نمبر۳۰

خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس  مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے۔ ان جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حرام کیا، نہ اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال کیا۔‘‘ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ‘‘۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے۔جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے۔‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،ص 453۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 63۔ یٰس، حاشیہ 53۔ الشوریٰ، حاشیہ 38)