سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۱۴ |
|
مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے۔ یہ واقعہ چونکہ مدینی میں پیش آیا تھا اس لیے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی (بخار، مسلم، نسائی، ابن جریر)، اور اسی بنا پر ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ضحاک، ابن سیرین، حسن بصری، ابن زید، اور عوف بن مالک الاشجعی جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے۔ مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری سورۃ مکی ہے۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہ اور ان کا کہنا یہ ہے اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آ رہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے، اس سیاق و سباق میں یکایک مدینے میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آ جانا قابل تصور نہیں ہے۔ بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے، اس لیے حضرت سعد نے قُدَماء کی عادت کے مطابق یہ فرمان دیا کہ یہ ان کے برے میں نازل ہوئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لائے اس وقت ان ہی کے بارے میں یہ نازل ہوئی، بلکہ اس مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس آیت کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں اور ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔ |