اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۲۵

چونکہ سرداران قریش اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے اور اپنی ثروت و مشیخت پر پھولے نہ سماتے تھے، اس لیے یہاں ان کو قوم عام کا قصہ سنایا جا رہا ہے۔ جس کے متعلق اگر قدیم زمانہ میں وہ اس سرزمین کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم تھی۔
احقاف حِقف کی جمع ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں ریت کے لمبے لمبے ٹیلے جو لندی میں پہاڑوں کی حد کو پہنچے ہو۔، لیکن اصلاحاً یہ صحرا عرب (الربع الخالی)کے جنوبی مغربی حصے کا نام ہے جہاں آج کوی آبادی نہیں ہے۔  نقشے میں اس کا مقام ملاحظہ ہو۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا اصل وطن الاحقاف تھا جہاں سے نکل کر وہ گرد و پیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور ممالک پر چھا گئے۔ آج کے زمانے تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ مین آباد تھے۔ موجودہ شہر مکلا سے تقریباً 125 میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب حضر موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہودؑ کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ہودؑ کے نام ہی سے مشہور ہے۔ ہر سال 15 شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ یہ خبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے، لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی علاقہ سے اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہے  اس کے لیے حضر موت میں متعدد خرابے (Ruing ) ایسے ہیں جن کو مقامی باشندے آج تک دارِ عاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

الاحقاف کی موجودہ حالت دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہو گی۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہو گا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اس ریگزار بنا دیا ہو گا۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کے بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ 1843ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا۔وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جس میں اگر کوئی چیز گر جائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہو جاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے۔ میں نے دور سے ایک شاہ قول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہو گیا اور اسی رسی کا سرا گل گیا۔ اس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا۔ مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو:

Arabia the isles, Harold ingramsLondon, 1946

The unveiling of Arabia R.H.Kiran,London 1937.

The Empty Quarter, Phiby, London 1933