اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۳

یعنی واقعی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نظام کائنات ایک بے مقصد کھلونا نہیں بلکہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام نظام ہے جس میں لازماً نیک و بد اور ظالم و مظلوم کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہونا ہے، اور کائنات کا موجودہ نظام دائمی و ابدی نہیں ہے بلکہ اسکی ایک خاص عمر مقرر ہے جس کے خاتمے پر اسے لازماً درہم برہم ہو جانا ہے، اور خدا کی عدالت کے لیے بھی ایک وقت طے شدہ ہے جس کے آنے پر وہ ضرور قائم ہونی ہے، لیکن جن لوگوں نے خدا کے رسول اور اس کی کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ان حقائق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کی کچھ فکر نہیں  ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان حقیقتوں سے خبردار کر کے خدا کے رسول نے ان کے ساتھ کوئی بُرائ کی ہے، حالانکہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑی بھلائی ہے کہ اس نے محاسبے اور باز پرس کا وقت آنے سے پلے ان کو نہ صرف یہ بتا دیا کہ وہ وقت آنے والا ہے،بلکہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا کہ اس وقت ان سے کن امور کی باز پرس ہو گی تاکہ وہ اس کے لیے تیاری کر سکیں۔
آگے کی تقریر سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ انسان کی سب سے بڑی بنیادی غلطی وہ ہے جو وہ خدا کے متعلق اپنے عقیدے کے تعین میں کرتا ہے۔ اس معاملہ میں سہل انگاری سے کام لے کر کسی گہرے اور سنجیدہ فکر و تحقیق کے بغیر ایک سر سری یا سُنا سنایا عقیدہ بنا لینا ایسی عظیم حماقت ہے جو  دنیا کی زندگی میں انسان کے پورے رویے کو، اور ابدلآباد تک کے لیے اس کے انجام کو خراب کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن جس وجہ سے آدمی اس خطر ناک سہل انگاری میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھ لیتا ہے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ خدا کے بارے میں جو عقیدہ بھی میں اختیار کر لوں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یا تو مرنے کے بعد سرے سے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں مجھے کسی باز پرس سے سابقہ پیش آئے، یا اگر ایسی کوئی زندگی ہو اور  وہاں باز پرس بھی ہو تو جن ہستیوں کا دامن میں نے تھام رکھا ہے وہ مجھے انجام بد سے بچا لیں گی۔ یہی احساس ذمہ داری کا فقدان آدمی کو مذہبی عقیدے دے انتخاب میں غیر سنجیدہ بنا دیتا ہے اور اسی بنا پر وہ بڑی بے فکری کے ساتھ دہریت سے لے کر شرک کی انتہائی نا معقول صورتوں تک طرح طرح کے لغو عقیدے خود گھڑتا ہے یا دوسروں کے گھڑے ہوئے عقیدے قبول کر لیتا ہے۔