سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۴ |
|
چونکہ مخاطب ایک مشرک قوم کے لوگ ہیں اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی وجہ سے وہ کس طرح بے سوچے سمجھے ایک نہایت غیر معقول عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات ماننے کے ساتھ بہت سی دوسری ہستیوں کو معبود بنائے ہوئے تھے، ان سے دعائیں مانگتے۔ تھے، ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے، ان کے آگے ماتھے رگڑتے اور نذر و نیاز پیش کرتے تھے، اور یہ خیال کرتے تھے کہ ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات انہیں حاصل ہیں۔ انہی ہستیوں کے متعلق ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ انہیں آخر کس بنیاد پر تم نے اپنا معبود مان رکھا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبودیت میں حصہ دار قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آدمی کو خود کسی ذریعہ علم سے یہ معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے بنانے میں واقعی اس کا بھی کوئی حصہ ہے۔ یا اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا ہو کہ فلاں صاحب بھی خدائی کے کام میں میرے شریک ہیں۔ اب اگر کوئی مشرک نہ یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ اسے اپنے معبودوں کے شریک خدا ہونے کا براہ راست علم حاصل ہے، اور نہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب میں یہ دکھا سکے کہ خدا نے خود کسی کو اپنا شریک قرار دیا ہے تو لا محالہ اس کا عقیدہ قطعی بے بنیاد ہی ہو گا۔
|