اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۴

چونکہ مخاطب ایک مشرک قوم کے لوگ ہیں اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی وجہ سے وہ کس طرح بے سوچے سمجھے ایک نہایت غیر معقول عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات ماننے کے ساتھ بہت سی دوسری ہستیوں کو معبود بنائے ہوئے تھے، ان سے دعائیں مانگتے۔ تھے، ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے، ان کے آگے ماتھے رگڑتے اور نذر و نیاز پیش کرتے تھے، اور یہ خیال کرتے تھے کہ ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات انہیں حاصل ہیں۔ انہی ہستیوں کے متعلق ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ انہیں آخر کس بنیاد پر تم نے اپنا معبود مان رکھا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبودیت میں حصہ دار قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آدمی کو خود کسی ذریعہ علم سے یہ معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے بنانے میں واقعی اس کا بھی کوئی حصہ ہے۔ یا اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا ہو کہ فلاں صاحب بھی خدائی کے کام میں میرے شریک ہیں۔ اب اگر کوئی مشرک نہ یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ اسے اپنے معبودوں کے شریک خدا ہونے کا براہ راست علم حاصل ہے، اور نہ خدا  کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب میں یہ دکھا سکے کہ خدا نے خود کسی کو اپنا شریک قرار دیا ہے تو لا محالہ اس کا عقیدہ قطعی بے بنیاد ہی ہو گا۔
اس آیت میں ’’ پہلے آئی ہوئی کتاب‘‘ سے مراد کوئی ایسی  کتاب ہے جو قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی ہو۔ اور علم کے ’’بقیہ‘‘ سے مراد قدیم زمانے کے انبیاء اور صلحاء کی تعلیمات کا کوئی ایسا حصہ ہے جو بعد کی نسلوں کو کسی قابل اعتماد ذریعہ سے پہنچا ہو۔ اور دونوں ذرائع سے جو کچھ بھی انسان کو ملا ہے اس میں کیں شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ تمام کتب آسمانی بالاتفاق وہی توحید پیش کرتی ہیں جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے۔ اور علوم اولین کے جتنے نقوش بھی بچے کھچے  موجود ہیں ان میں بھی کہیں اس امر کی شہادت نہیں ملتی کہ کسی نبی یا ولی یا مرد صالح نے کبھی لوگوں کو خدا کے سوا کسی اور کی بندگی و عبادت کرنے کی تعلیم دی ہو۔ بلکہ اگر کتاب سے مراد کتاب الٰہی، اور بقیہ علم سے مراد انبیاء و صلحاء کا چھوڑا ہو علم نہ بھی لیا جائے، تو دنیا کی کسی علمی کتاب اور دینی یا دنیوی علوم کے کسی ماہر کی تحقیقات میں بھی آج تک اس امر کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے کہ زمین یا آسمان کی فلاں چیز کو خدا کے سوا فلاں بزرگ یا دیوتا نے پیدا کیا ہے، یا انسان جن نعمتوں سے اس کائنات میں متمتع ہو رہا ہے ان میں سے فلاں نعمت خدا کے بجائے فلاں معبود کی آفریدہ ہے۔