اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الاحقاف حاشیہ نمبر۸

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کفار مکہ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ صاف یہ محسوس کرتے تھے کہ اس کلام کی شان انسانی کلام سے بدر جہا بلند ہے۔ ان کے کسی شاعر، کسی خطیب، اور کسی بڑے سے بڑے ادیب کے کلام کو بھی قرآن کی بے مثل فصاحت و بلاغت، اس کی وجد آفرین خطابت، اس کے بلند مضامین اور دلوں کو بر ما دینے والے انداز بیان سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنی کلام کی شان بھی وہ نہ تھی جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہونے والے کلام میں نظر آتی تھی۔ جو لوگ بچپن سے آپ کو دیکھتے چلے آ رہے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی زبان اور قرآن کی زبان میں کتنا عظیم فرق ہے، اور ان کے لیے یہ باور کرنا ممکن نہ تھا کہ ایک آدمی جو چالیس پچاس برس سے شب و روز ان کے درمیان رہتا ہے وہ یکایک کسی وقت بیٹھ کر ایسا کلام گھڑ لیتا ہے جس کی زبان میں اس کی اپنی جانی پہچانی زبان سے قطعاً کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز ان کے سامنے حق کو بالکل بے نقاب کر کے لے آتی تھی۔ مگر وہ چونکہ اپنے کفر پر اڑے رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے، اس لیے اس صریح علامت کو دیکھ کر سیدھی طرح اس کلام کو کلام وحی مان لینے کے بجائے یہ بات بناتے تھے کہ یہ کوئی جادو کا کرشمہ  ہے۔ (ایک اور پہلو جس کے لحاظ سے وہ قرآن کو جادو قرار دیتے تھے، اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،ص 145۔ 146۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ ص، حاشیہ 5)۔