اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ محمد حاشیہ نمبر۳۲

مطلب یہ ہے کہ جن حالات سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے اور کفار کا جو رویہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تھا، اس کی بنا پر جنگ کا حکم آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کی عام رائے یہ تھی کہ اب ہمیں جنگ کی اجازت مل جانی چاہیے۔ بلکہ وہ بے چینی کے ساتھ اللہ کے فرمان کا انتظار کر رہے تھے اور بار بار پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ مگر جو لوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے ان کا حال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اپنی جان و مال کو خدا اور اس کے دین سے عزیز تر رکھتے تھے اور اس کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ جنگ کے حکم نے آتے ہی ان کو اور سچے اہل ایمان کو ایک دوسرے سے چھانٹ کر الگ کر دیا۔ جب تک یہ حکم نہ آیا تھا، ان میں اور عام اہل ایمان میں بظاہر کوئی فرق و امتیاز نہ پایا جاتا تھا۔ نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور یہ بھی۔ روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام انہیں قبول تھا۔ مگر جب اسلام کے لیے جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو ان کے نفاق کا حال کھل گیا اور نمائشی ایمان کا وہ لبادہ اتر گیا جو انہوں نے اوپر سے اوڑھ رکھا تھا۔ سورہ نساء میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کی گیا ہے: ’’تم نے دیکھا ان لوگوں کو جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا حال یہ  ہے کہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے خد اسے ڈرنا چاہیے۔ بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ۔ کہتے ہیں، خدایا، یہ لڑائی کا حکم ہمیں کیوں دے دیا؟ ہمیں ابھی اور کچھ مہلت کیوں نہ دی؟‘‘(آیت 77)۔