اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ محمد حاشیہ نمبر۴۱

۔ یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمیعت اسلام کی علمبرداری کر رہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، بلکہ سر دھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہو جائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے، اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں۔