اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۲۹

’’ اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے‘‘ کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہوگا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت 84 انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات 18 ۔ 19 کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات 18 ۔ 19  بھی شامل ہیں، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں اللہ  تعالیٰ اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا۔