اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۳۲

یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام سے لی گئی تھی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسولؐ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے۔ اپنے جنگی مستقر(مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا، صرف 13 میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہر جاتی ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسولؐ کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس ما معاوضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے، وہ شاید اللہ سے یہ بد گمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا۔
جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولیٰ بن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے، حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا (طبقات ابن سعد ، ج 2، ص 100 )۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا( ص 105)۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃالقضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پاسکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا، چھوڑو، اس تکلف کی کیا حاجت ہے۔