اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الفتح حاشیہ نمبر۵۷

ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ’’ان میںسےجو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات 4۔5۔18 اور 26 کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات 4۔5۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت 18 میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت 26 میں بھی حضورؐ کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھمیں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُو ا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ ’’ بتوں میں سےجا نا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا۔