اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحجرات حاشیہ نمبر۱۷

یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میں اس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبہ کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں:
1)۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔
(الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔
(ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقت ور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔
(ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بر سر حق فریق کا ساتھ دیں۔
(د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصطلاح میں اسی خروج کرنے والے گروہ کے لئے "باغی" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
2)۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں:
(الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔
(ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں،اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔
(ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔
(د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جب کہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہر حال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔
(ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو ’’باغی‘‘ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امارت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سر خسی لکھتے ہیں کہ ’’ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خرج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ‘‘ (المبسوط، باب الخوارج)۔ امام، نَوَوِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ’’ ائمہ،یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ اس پر امام نووی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔
لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں ’’باغی‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق ’’بغاوت‘‘ کا مصداق نہیں ٹھیراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص 81۔جلد دوم،ص 39) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی(الجصاص،ج 1 ص 81)۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا(الجصاص،ج1،ص 81۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری،ج2،ص71۔72)۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْالخارج عن طاعۃ امام الحق، ’’ فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے‘‘۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور  ابن لجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھیراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج 10، باب قتال اہل البغی)۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج 4،ص135)۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ’’ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے‘‘(جلد اول،ص 407)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ’’ جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا‘‘۔ ایک اور قول امام مالکؒ کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : ’’ جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے ‘‘ پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو‘‘۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الامع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لا نفسہم۔‘‘ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھا یا ہو‘‘۔
3)۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔
4)۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں،ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔(المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص)۔
5)۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جائے، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص)۔
6)۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔: حضورؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ،جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو،خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جائے۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟
7)۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علیؓ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہرحال اسے نہ مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو، اسکا کوئی ضِمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کے رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔ الجصاص)۔
8 )۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کر دیا جائے گا۔ (المبسوط)۔
9 )۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس رومی بطریق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو  آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کا رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔(المبسوط)۔
10 )۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العربی)۔
11 )۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دو بارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سر نو اس زکوٰۃ اور ان محصولات  کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں تو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ابن العربی)۔
12)۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا (المبسوط۔ الجصاص)۔
13)۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جائے گی، مگر جب وہ جنگ کر کے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص)۔

ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے۔