اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحجرات حاشیہ نمبر۱۸

یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔
 حضرت  جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ  دیتا رہوں گا۔تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتاب الایمان)۔
حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر‘‘(بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید ؓ بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے )۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ و سلم نے فرمایا’’ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے ‘‘۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ)۔
حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ‘‘(مسند احمد)۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپؐ  نے فرمایا ہے ’’ مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے ‘‘(بخاری و مسلم)۔
ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ’’ مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے ‘‘(بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ)۔