اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحجرات حاشیہ نمبر۲۲

اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کیا ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا گاتا ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش (چندے سلیمان)اور واصل الاخدَب (کبڑے واصل) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی  خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ وہ بجائے خود برا ہو۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھے جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے، انہیں پسند کرتے ہیں، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب۔