اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۳۸

اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ میرے اندر اب مزید آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ ’’اور فتنے مجرم بھی ہیں انہیں لے آیئے ‘‘ پہلا مطلب لیا جائے تو اس ارشاد سے تصور یہ سامنے آتا ہے کہ مجرموں کو جہنم میں اس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے اس میں ایک سوئی کی بھی گنجائش نہیں رہی، حتیٰ کہ جب اس سے پوچھا گیا کی کیا تو بھر گئی تو وہ گھبرا کر چیخ اٹھی کہ کیا ابھی اور آدمی بھی آنے باقی ہیں؟ دوسرا مطلب لیا جائے تو یہ تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جہنم کا غیظ اس وقت مجرموں پر کچھ اس بڑی طرح بھڑکا ہوا ہے کہ وہ ہل من مزید کا مطالبہ کیے جاتی ہے اور چاہتی ہے کہ آج کوئی مجرم اس سے چھوٹنے نہ پائے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب اور اس کے جواب کی نوعیت کیا ہے۔؟ کیا یہ محض مجازی کلام ہے؟ یا فی الواقع جہنم کوئی ذی روح اور ناطق چیز ہے جسے مخاطب کیا جا سکتا ہو اور سہ بات کا جواب دے سکتی ہو؟ اس معاملہ میں درحقیقت کوئی بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مجازی کلام ہو اور محض صورت حال کا نقشہ کھینچنے  کے لیے جہنم کی کیفیت کو سوال و جوا کی شکل میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے موٹر سے پوچھا تو چلتی کیوں نہیں، اس جے جواب دیا، میرے اندر پٹرول نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی بالکل ممکن ہے کہ یہ کلام مبنی بر حقیقت ہو۔ اس لیے کہ دنیا کی جو چیزیں ہمارے لیے جامد و صامت ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے لیے بی ویسی ہی جامدو صامت ہوں گی۔ خالق اپنی ہر مخلوق سے کلام کر سکتا ہے اور اس کی ہر مخلوق اس کے کلام کو جواب دے سکتی ہے خواہ ہمارے لیے اس کی زبان کتنی ہی ناقابل فہم ہو۔