اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۴

یعنی یہ بات اگر ان لوگوں کی عقل میں نہیں سماتی تو یہ ان کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ اس سے یہ  تو لازم نہیں آتا کہ اللہ کا علم اور اس کی قدرت بھی تنگ ہو جائے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے بے شمار انسانوں کے جسم کے اجزاء جو زمین میں بکھر چکے ہیں اور آئندہ بکھرتے چلے جائیں گے، ان کو جمع کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہر جُز جس شکل میں جہاں بھی ہے، اللہ تعالیٰ براہ راست اس کو جانتا ہے، اور مزید براں اس کا پورا ریکارڈ اللہ کے دفتر میں محفوظ کیا جا رہا ہے جس سے کوئی ایک ذرہ بھی چھُٹا ہوا نہیں ہے۔ جس وقت اللہ کا حکم ہو گا اسی وقت آناً فاناً اس کے فرشتے اس ریکارڈ سے رجوع کر کے ایک ایک ذرے کو نکال لائیں گے اور تمام انسانوں کے وہ جسم پھر بنا دیں گے جن میں رہ کر انہوں نے دنیا کی زندگی میں کام کیا تھا۔

یہ آیت بھی من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی نہ صرف یہ کہ ویسی ہی جسمانی زندگی ہو گی جیسی اس دنیا میں ہے، بلکہ جسم  بھی ہر شخص کا وہی ہوگا جو اس دنیا میں تھا اگر یہ حقیقت یہ نہ ہوتی تو کفار کی بات کے جواب میں یہ کہنا بالکل بے معنی تھا کہ زمین تمہارے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم ہے۔ اور ذرے ذرے کا ریکارڈ موجود ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حاشیہ 25)۔