سورۃ ق حاشیہ نمبر۵۱ |
|
یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آئے، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آئے، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنے ور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ ’’ طلوع آفتاب سے پہلے۔‘‘ فجر کی نماز ہے ‘‘غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں، ایک ظہر، دوسری عصر ‘‘۔ رات کے وقت۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، بنی اسرائیل، حواشی 91 تا 97۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ 111۔ الروم، حواشی 23۔24)۔ رہی وہ تسبیح جو ’’سجدے فارغ ہونے کے بعد ‘‘ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت حسن بن علی، حضرات ابوہریرہ، ان عباس، شُیبی، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیے ہیں۔ حضرت عبداللہ ن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں۔
|