اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ ق حاشیہ نمبر۶

اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار  مکہ کے موقف کی نا معقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی  ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں  آ گئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا ہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے۔