اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۱۰

کفارہ کا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا، اس لیے ان کو جواب اس اندازے سے دیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا را نتیجہ دیکھو گے، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت، آخر وہ دن کب آئے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس بُرے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہو گا۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کر سکتا ہے، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہو چکا ہو، یہ سوال وہ کبھی نہیں کر سکتا بتاؤ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی۔اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہو گا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہو گا۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی  فلاں تاریخ کو آئے گی۔ تاریخ کا تعین سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پلے آخر کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہو جائے گی۔