اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۱۲

کفار کا یہ پوچھنا کہ ’’آخر وہ روز جزا کب آئے گا‘‘ اپنے اندر خود یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے؟ جب ہم اس کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے جھٹلانے کی سزا ہمارے لیے لازم ہو چکی ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتا؟ اسی لیے جہنم کی آگ میں جب وہ تپ رہے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ اس فقرے سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ مہر بانی تھی کہ اس نے تم سے نافرمانی کا ظہور ہوتے ہی تمہیں  فوراً نہ پکڑ لیا اور سوچنے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے وہ تم کو ایک لمبی مہلت دیتا رہا۔ مگر تم ایسے احمق تھے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہ وقت تم پر جلدی لے آیا جائے۔ اب دیکھ لو کہ وہ کیا چیز تھی جس کے جلدی آ جا نے کا مطالبہ تم کر رہے تھے۔