اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۱۴

اگر چہ اصل الفاظ ہیں اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبُّھُمْ، اور ان کا لفظی ترجمہ  صرف یہ ہے کہ ’’ لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کے رب نے ان کو دیا ہو گا‘‘، لیکن موقع و محل کی مناسبت سے اس جگہ ’’لینے ‘‘ کا مطلب محض ’’لینا‘‘ نہیں بلکہ خوشی خوشی لینا ہے، جیسے کچھ لوگوں کو ایک سخی داتا مٹھیاں بھر بھر کر انعام دے رہا ہو اور وہ لپک لپک اسے لے رہے ہوں۔ جب کسی شخص کو اس کی پسند کی چیز دی جائے تو اس لینے میں آپ سے آپ بخوشی قبول کرنے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ اَلَمْ یَعْلَموٓا اَنَّ اللہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عَبَا دِہٖ سَیَأ خُذُ الصَّدَقَاتِ۔ (التوبہ۔104)۔ ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے۔‘‘ اس جگہ صدقات لینے سے مراد محض ان کو وصول کرنا نہیں بلکہ پسندیدگی کے ساتھ ان کو قبول کرنا ہے۔