اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الذٰریٰت حاشیہ نمبر۵۴

یعنی میری کوئی غرض جِنوں اور انسانوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ یہ میری عبادت کریں گے تو میری خدائی چلے گی اور یہ میری بندگی سے منہ موڑ لیں گے تو میں خدا نہ رہوں گا۔ میں ان کی عبادت کا محتاج نہیں ہو بلکہ میری عبادت کرنا خود ان کی اپنی فطرت کا تقاضا ہے، اسی کے لیے یہ پیدا کیے گئے ہیں، اور اپنی فطرت سے لڑنے میں ان کا اپنا نقصان ہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ’’ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں‘‘، اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ خدا سے برگشتہ لوگ دنیا میں جن جن کی بندگی بجا لا رہے ہیں، وہ سب در حقیقت اپنے ان بندوں کے محتاج ہیں۔ یہ ان کی خدائی نہ چلائیں تو ایک دن بھی وہ نہ چلے۔ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ الٹے یہ ان کو رزق پہنچاتے ہیں۔ وہاں ان کو نہیں کھلاتے بلکہ الٹے یہ ان کو کھلاتے ہیں۔ وہ ان کی جان کی محافظ نہیں بلکہ الٹے یہ ان کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے لشکر یہ ہیں جن کے بل پر ان کی خدائی چلتی ہے۔ جہاں بھی ان جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے والے بندے نہ رہے، یا بندوں نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا وہاں ان کے سب ٹھاٹھ پڑے رہ گئے اور دنیا کی آنکھوں نے ان کی کسمپرسی کا حال دیکھ لیا۔ سارے معبودوں میں اکیلا ایک اللہ جل شانہ ہی وہ حقیقت معبود ہے جس کی خدائی اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے، جو اپنے بندوں سے کچھ لیتا نہیں بلکہ وہی اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے۔