اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۱۹

یہ نکتہ قابل غور ہے کہ غُلْمَا نُھُمْ نہیں فرمایا بلکہ غِلْمَا نٌ لَّہُمْ فرمایا ہے ۔ اگر غِلْمَا نُہُمْ فرمایا جاتا تو اس کے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ دنیا میں ان کے جو خادم تھے وہی جنت میں بھی ان کے خادم بنا دیے جائیں گے ، حالانکہ دنیا کا جو شخص بھی جنت میں جائے گا اپنے استحقاق کی بنا پر جائے گا اور کوئی وجہ نہیں کہ جنت میں پہنچ کر وہ اپنے اسی آقا کا خادم بنا دیا جائے جس کی خدمت وہ دنیا میں کرتا رہا تھا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم اپنے عمل کی وجہ سے اپنے مخدوم کی بہ نسبت زیادہ بلند مرتبہ جنت میں پائے۔ اس لیے غِلْمَانٌ لَّھُمْ فرما کر اس گمان کی گنجائش باقی نہیں دہنے دی گئی۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ وہ لڑکے ہوں گے جو جنت میں ان کی خدمت کے لیے مخصوص کر دیے جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 26)۔