اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۲۰

یعنی ہم وہاں عیش میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو کر غفلت کی زندگی نہیں گزار رہے تھے ، بلکہ ہر وقت ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس پر خدا کے ہاں ہماری پکڑ ہو۔ یہاں خاص طور پر اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے ہوئے زندگی بس کرنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ آدمی سب  سے زیادہ جس وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے بال بچوں کو عیش کرانے اور ان کی دنیا بنانے کی فکر ہے ۔ اسی کے لیے وہ حرام کماتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے ، اور طرح طرح کی نا جائز تدبیریں کرتا ہے ۔ اسی بنا پر اہل جنت آپس میں کہیں گے کہ خاص طور پر جس چیز نے ہمیں عاقبت کی خرابی سے بچایا وہ یہ تھی کہ اپنے بال بچوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ان کو عیش کرانے اور ان کا مستقبل شاندار بنانے کی اتنی فکر نہ تھی جتنی اس بات کی تھی کہ ہم ان کی خاطر وہ طریقے نہ اختیار کر بیٹھیں جن سے ہماری آخرت برباد ہو جائے، اور اپنی اولاد کو بھی ایسے راستے پر نہ ڈال جائیں جو ان کو عذاب الہیٰ کا مستحق بنا دے ۔