اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطور حاشیہ نمبر۳۰

ان مختصر فقروں  میں ایک بڑے مفصل استدلال کو سمو دیا گیا ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر تمہیں رسول کی بات ماننے سے انکار ہے تو تمہارے پاس خود حقیقت کو جاننے کا آخر ذریعہ کیا ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی شخص عالم بالا میں پہنچا ہے اور اللہ تعالیٰ،یا اس کے فرشتوں سے اس نے براہ راست یہ معلوم کر لیا ہے کہ وہ عقائد بالکل حقیقت کے مطابق ہیں جن پر تم لوگ اپنے دین کی بنا رکھے ہوئے ہو؟ یہ دعویٰ اگر کسی کو ہے تو وہ سامنے آئے اور بتائے کہ اسے کب اور کیسے عالم بالا تک رسائی حاصل ہوئی ہے اور کیا علم وہ وہاں سے لے کر آیا ہے ۔ اور اگر یہ دعویٰ تم نہیں رکھتے تو پھر خود ہی غور کرو کہ اس سے زیادہ مضحکہ انگیز عقیدہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم اللہ رب العالمین کے لیے اولاد تجویز کرتے ہو، اور اولاد بھی لڑکیاں ، جنہیں تم خود اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے ہو؟ علم کے بغیر اس قِسم کی صریح جہالتوں کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہو، اور خدا کی طرف سے جو شخص علم کی روشنی تمہارے سامنے پیش کرتا ہے اس کی جان کے دشمن ہوئے جاتے ہو۔