اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۱۵

۔ مطلب یہ ہے کہ جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو دے رہے ہیں اس کو تو تم لوگ گمرہی اور بد راہی قرار دیتے ہو، حالانکہ یہ علم ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جا رہا ہے اور اللہ ان کو آنکھوں سے وہ حقائق دکھا چکا ہے جن کی شہادت وہ تمہارے سامنے دے رہے ہیں۔ اب ذرا تم خود دیکھو کہ جن عقائد کی پیروی پر تم اصرار خیے چلے جا رہے ہو وہ کس قدر غیر معقول ہیں، اور ان کی مقابلے میں جو شخص تمہیں سیدھا راستہ بتا رہا ہے اس کی مخالفت کر کے آخر تم کس کا نقصان کر رہے ہو۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان تین دیویوں کو بطور مثال لیا گیا ہے جن کو مکہ، طائف، مدینہ، اور نواحی حجاز کے لوگ سب سے زیادہ پوجتے تھے ۔ ان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ کبھی تم نے عقل سے کام لے کر سوچا بھی کہ زمین و آسمان کی خدائی کے معاملات میں ان کا کوئی ادنیٰ سا دخل بھی ہو سکتا ہے ؟ یا خداوند عالم سے واقعی ان کا کوئی رشتہ ہو سکتا ہے ؟
لات کا استھان طائف میں تھا اور بنی ثقیبف اس کے اس حد تک معتقد تھے کہ جب ابرہہ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو توڑنے کے لیے مکہ پر چڑھائی کرنے جا رہا تھا اس وقت ان لوگوں نے محض اپنے اِس معبود کے آستانے کو بچانے کی خاطر اس ظالم کو مکے کا راستہ بتانے کے لیے بَدْرَقے فراہم کیے تا کہ وہ لات کو ہاتھ نہ لگائے۔ حالانکہ تمام اہل عرب کی طرح ثقیف کے لوگ بھی یہ مانتے تھے کہ کعبہ اللہ کا گھر ہے ۔ لات کے معنی میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن جریر طبری کی تحقیق یہ ہے کہ یہ اللہ کی تانیث ہے ، یعنی اصل میں یہ لفظ اللّٰلہۃٌ تھا جسے اللّٰات کر دیا گیا۔ زَمخشری کے نزدیک یہ لَویٰیَلْوی سے مشتق ہے ، جس کے معنی مڑنے اور کسی کی طرف جھکنے کے ہیں۔ چونکہ مشرکین عبادت کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کے آ گئے جھکتے اور اس کا طواف کرتے تھے اس لیے اس کو لات کہا جانے لگا۔ ابن عباسؓ اس کو لات بتشدید  تاء پڑھتے ہیں اور اسے لَت یلتُّ سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی متھنے اور لتھیڑنے کے ہیں۔ ان کا اور مجاہد کا بیان ہے کہ یہ دراصل ایک شخص تھا جو طائف کے قریب ایک چٹان پر رہتا تھا اور حج کے لیے جانے والوں کو سَتُّو پلاتا اور کھانے کھلاتا تھا۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اسی چٹان پر اس کا استھان بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے ۔ مگر لات کی یہ تشریح ابن عباس اور مجاہد جیسے بزرگوں سے مروی ہونے کے باوجود  دو وجوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ ایک یہ کہ قرآن میں اسے لات کہا گیا ہے نہ کہ لاتّ۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید ان تینوں کو دیویاں بتا رہا ہے ، اور اس روایت کی رو سے لات مرد تھا نہ عورت۔
عزیٰ عزت سے ہے اور اس کے معنی عزت والی کے ہیں۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادیِ نخلہ میں حُراض کے مقام پر واقع تھا (نخلہ کی جائے وقوع کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحقاف، حاشیہ 23)۔ بنی ہاشم کے حلیف قبیلہ بنی شیبان کے لوگ اس کے مجاور تھے ۔ قریش اور دوسرے قبائل کے لوگ اس کی زیارت کرتے اور اس پر نذریں چڑھاتے اور اس کے لیے قربانیاں کرتے تھے ۔ کعبہ کی طرح اس کی طرف بھی بدی کے جانور لے جائے جاتے اور تمام بتوں سے بڑھ کر اس کی عزت کی جاتی تھی۔ ابن ہشام کی روایت ہے کہ ابو اُحیحہ جب مرنے لگا تو ابولہب اس کی عیادت کے لیے گیا۔ دیکھا کہ وہ رو رہا ہے ۔ ابولہب نے کہا کیوں روتے ہو ابو اُلحیحہ؟ کیا موت سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ وہ سب ہی کو آنی ہے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم میں موت سے ڈر کر نہیں توتا، بلکہ مجھے یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ میرے بعد عزیٰ کی پوجا کیسے ہو گی۔ابو لہب بولا۔ اس کی پوجا نہ تمہاری زندگی میں تمہاری خاطر ہوتی تھی اور نہ تمہارے بعد اسے چھوڑا جائے گا۔ ابو الُحیحہ نے کہا اب مجھے اطمینان ہو گیا کہ میرے بعد کوئی میری جگہ سنبھالنے والا ہے ۔
مَناۃ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر تھا اور خاص طور پر خزاعہ اور اوس اور خزرج کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے ۔ اس کا حج اور طواف کیا جاتا اور اس پر نذر کی قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہو جاتے تو وہیں سے مناۃ کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند کر دی جاتیں اور جو لوگ اس دوسرے ’’حج‘‘ کی نیت کر لیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے ۔